Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر14

اگلی صبح ساوی ڈرائیور کے ساتھ یونیورسٹی گئی تھی نیو سمسٹر کی فیس جمع کروانے۔۔۔۔ افرحہ گھر پر ہی تھی۔۔۔۔ افرحہ کے ڈر کو دیکھتے ہوئے نادیہ بیگم نے اسے خود سمجھایا تھا اور اپنے ساتھ کا یقین دلایا تھا کہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں اور انہیں اپنے بچوں کی خوشی زیادہ عزیز ہے وہ کبھی ایسا فیصلہ نہیں کر سکتے جن کی وجہ سے ان کے بچوں کی خوشیاں ان کو نہ ملیں ۔۔۔۔ اور افرحہ ان کی بات سمجھ بھی گئی تھی۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں بیڈ پہ نیم دراز تھی ساوی بھی نہیں تھی جس کے ساتھ وہ گپ شپ کر لیتی۔۔۔۔ اس کے کمرے کا دروازہ نیم وا تھا لائٹ آف تھی مگر کھڑکی سے آتی روشنی کمرے کو روشن کیے ہوئے تھی۔۔۔۔ وہ آنکھوں پہ بازو رکھ کے لیٹ گئی۔۔۔ آہستہ سے دروازہ کھلا اور شایان اندر داخل ہوا اس نے مڑ کر دروازہ لاک کر دیا۔۔۔۔ اس کی سیدھی نظر بیڈ پہ دراز افرحہ پہ گئی جو آنکھوں کو ڈھانپے پتہ نہیں سو رہی تھی یا شاید جاگ رہی تھی۔۔۔ وہ دھیرے سے قدم اٹھاتا اس کے بیڈ کی طرف بڑھا کہ آواز پیدا نہ ہو۔۔۔ اور اس کے بائیں سائیڈ پہ موجود خالی جگہ پہ بیٹھ گیا اور محویت سے اسے دیکھنے لگا افرحہ ہنوز اس کی موجودگی سے بے خبر اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔۔۔۔۔ خود پہ موجود گہری اور مسلسل نظروں سے بےچین ہوتی وہ آنکھوں سے بازو ہٹاتی سامنے دیکھنے لگی اور شایان کو دیکھ کے اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔۔ اس کی نظروں سے پزل ہوتی وہ جلدی سے دوپٹہ اوڑھ گئی جو سائیڈ پہ رکھا تھا اور شایان اُس کی اس حرکت پہ مسکرا اٹھا۔۔۔ آ آپ یہاں کیا کر رر رہے ہہ ہیں ؟؟؟ وہ نروس ہوتی بولی۔۔۔ کُچھ نہیں اپنی مسسز ٹو بی کو دیکھنے آیا تھا۔۔۔اس نے اطمینان سے جواب دیا ۔ ججج جی ۔۔۔۔وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ ججج جی ہاں کیوں کوئی مسلہ ہے؟؟ اس نے افرحہ کی نقل اتارتے پوچھا۔ مم میں نے اا بھی ہہہ ہاں نہیں کک کی اس رر رشتے کے لیے۔۔۔۔ وہ نظریں چراتی ہوئی ہکلا کر بولی اور وہ چپ چاپ اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔ اس دن میری کسی بات کا اثر نہیں ہوا تھا تمہیں ؟؟؟ ایکدم اس کو بازو سے دبوچتا ہوا وہ غرایا تو اسے ایک پل سمجھ ہی نہ آیا ہوا کیا ہے ۔۔۔۔ ممم میں وہ وہ۔۔۔۔۔ وہ اس کے ری ایکشن سے ڈرتی ہکلا گئی۔۔۔ کیا میں وہ ۔۔۔۔ یہ میرے آگے تمہاری بولتی کیوں بند ہو جاتی ہے ڈریکولا ہوں یا آدم خور جو تمہیں کھا جائے گا؟؟؟ وہ اسے گھورتے ہوئے لفظ چبا چبا کر بولا ۔۔ مم مجھے کُچھ وقت چاہیے۔۔۔۔ جواب بھی دیا تو کیا۔۔۔۔۔ ادھر میری طرف دیکھو۔۔۔۔۔ افرحہ میں ایک لائل انسان ہوں دوغلا پن مجھے نہیں آتا نہ ہی میں کوئی ٹھرکی ہوں جو ہر لڑکی کے ساتھ فلرٹ کرتا ہے۔۔۔۔ تم میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی ہو۔۔۔۔میں ہر کسی لڑکی کو یوں ڈیفینڈ نہیں کرتا نہ ہی کسی لڑکی کے لیے سٹینڈ لیتا ہوں میں نے تمہیں ڈیفنڈ کیا تمہارا ساتھ دیا کیوں کہ تم میرے لیے خاص ہو۔۔۔ آج سے نہیں بہت پہلے سے میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔۔ اور چاہتا ہوں کہ تم میری محبت کا جواب محبت سے ہی دو۔۔۔۔ میں تمہیں اپنی عزت سمجھتا ہوں اور اپنی عزت کی عزت کروانا شایان کو اچھی طرح آتا ہے ۔۔۔۔ اگر تمہیں کسی قسم کا کوئی ڈر ہے تو کھل کے کہو میرا وعدہ ہے ہر ڈر دور کر دوں گا اتنی محبت اتنی چاہت دوں گا کہ تمہارا دامن کم پڑ جائے گا تم خود کے ہونے پہ ناز کرو گی۔۔۔۔۔ صرف ایک بار بھروسہ تو کر کے دیکھو تم جتنا وقت چاہو لے لینا مگر بس شادی ہونے دو۔۔۔۔۔۔ وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیے اس پہ اپنی محبت چاہت عیاں کر رہا تھا اس پہ اپنے لفظوں کا سحر چھوڑ رہا تھا اور وہ اس کے سحر میں کھوتی جا رہی تھی کہ اسے یہ بھی دھیان نہ رہا کہ اس سب کے دوران وہ اس کے کس قدر قریب ہے۔۔۔۔ جواب دو تمہیں میرا ساتھ قبول ہے نہ ؟؟؟ وہ جو یک ٹک اس کی طرف دیکھ رہی تھی اس کی آواز پہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔۔۔۔ قبول ہے قبول ہے ۔۔۔۔۔۔وہ بے خودی میں بول رہی تھی۔۔۔ بسسس یار تیسری بار قبول ہے مت کہنا ورنہ نکاح ہو جائے گا پھر ماما بابا کو کیا بتاوں گا کہ ان کی بہو کو کس بات کی اتنی جلدی تھی کہ ان کے بغیر ہی نکاح کر لیا ۔۔۔۔۔ شایان نے اس کی بات کاٹتے شرارت سے کہا تو افرحہ اپنی بے ساختگی پہ شرمندگی سے سر جھکا گئی۔۔۔ اچھا اب تم راضی ہو تو میں ماما بابا سے بات کر لوں نا شادی کی ؟؟ اس نے افرحہ کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ شرما کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی کہ اب وہ اپنے منہ سے اپنی شادی کی بات کرنے کا کہے۔۔۔ اور شایان اس کا شرمایا سا روپ دیکھتا آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پہ عقیدت بھرا لمس چھوڑ گیا۔۔۔۔ تھینکیو مجھے قبول کرنے کے لیے اب میری ہونے کی تیاری پکڑو مسز ٹو بی۔۔۔۔ وہ اس کی طرف محبت سے دیکھتا مسکراتے لہجے میں بولا اور وہ خاموشی سے سر ہلا گئی کہ ابھی تک وہ اس کے عقیدت بھرے لمس کے سحر میں تھی۔۔۔ اوکے تو پھر میں چلتا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ کہتا باہر نکل گیا اور وہ گہرا سانس بھرتی بیڈ کراون سے ٹیک لگا گئی۔۔۔۔۔


ساوی کو اپنی اور افرحہ کی فیس جمع کرواتے کرواتے بارہ بج گئے تھے اس نے ڈرائیور کو کال کی کہ وہ آکے اسے لے جائے مگر ڈرائیور کا نمبر بند جا رہا تھا ۔۔۔ اس نے جھنجھلا کے فون بند کیا۔۔۔۔ وہ گیٹ سے باہر آئی کہ شاید ڈرائیور باہر ہی ہو مگر وہ باہر بھی نہیں تھا وہ واپس مڑنے کو تھی کہ اسے اپنے نام کی پکار سنائی دی۔۔۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو حیران ہوئی کیونکہ اسے آواز دینے والا اشعر تھا۔۔۔ اشعر بھائی آپ یہاں ؟؟ وہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ مجھے تم سے کُچھ بات کرنی ہے افرحہ کیا تم میرے ساتھ آو گی۔۔۔ اشعر نے کہا۔ مگر مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی اشعر بھائی پہلے ریسٹورینٹ میں آپ نے اور پھر آپ کے گھر میں آپ کی ماما نے جو کیا اس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ اب کوئی بات کرنے کی گنجائش ہے۔۔۔ ساوی نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ میں تم سے اسی بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں ساوی پلیز بس پانچ منٹ کی بات ہے اپنا بھائی سمجھتی ہو تو مان لو میری بات میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔۔۔اب کی بار وہ منت کرتے ہوئے بولا۔۔ ساوی نے کُچھ دیر سوچا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے پانچ منٹ کی ہی تو بات ہے سننے میں کیا حرج ہے۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ اس کی پہلی بڑی غلطی تھی۔ اگر جانتی تو کبھی ایسی حماقت نہ کرتی ۔۔۔۔ ٹھیک ہے اشعر بھائی میں چلتی ہوں مگر صرف پانچ منٹ اس سے زیادہ نہیں۔۔۔۔ اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا ۔۔ ہاں بلکل اس سے زیادہ ٹائم نہیں لوں گا ۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ پھر وہ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تو اشعر نے گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔ آپ گاڑی کیوں سٹارٹ کر رہے ہیں پانچ منٹ کی بات ہے تو آپ یہیں کریں۔۔۔ ساوی نے الجھتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہاں پاس میں ایک ریسٹورینٹ ہے وہاں پہ رش نہیں ہوتا اور اب تو لنچ ٹائم ہے لنچ بھی کر لیں گے اور بات بھی ہو جائے گی ۔۔۔۔ اس نے ساوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کہ اب پریشان نظر آنے لگی تھی ۔۔۔ نہیں مجھے نہیں جانا آپ گاڑی روکیں ۔۔۔ ساوی کیا تمہیں مجھ پہ اتنا سا بھی اعتبار نہیں ہے ؟؟ اشعر نے ایسے لہجے میں کہا کہ ساوی آگے سے کُچھ بول ہی نہ پائی اور چپ کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔ دس منٹ بعد وہ ایک ریسٹورینٹ میں موجود تھے ۔۔۔ اشعر نے کھانا آرڈر کیا۔ جی اشعر بھائی کہیے کیا بات کرنی ہے مجھے جلدی جانا ہے ڈرائیور ویٹ کر رہا ہو گا۔۔۔ وہ اپنی رسٹ واچ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ ریلیکس میں تمہیں گھر چھوڑ دوں گا اور تمہارے ڈرائیور کو میں نے واپس بھیج دیا ہے۔۔۔۔۔ وہ آرام سے اس کا سکون برباد کرتے ہوئے بولا۔۔ کیا مطلب ہے اس بات کا ؟؟ کس سے پوچھ کر آپ نے ایسا کیا؟؟ اس نے غصے سے پوچھا۔ مجھے کُچھ بھی کرنے کے لیے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے میں جو چاہتا ہوں وہی کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ اطمینان سے بولا ۔۔۔ میں جا رہی ہوں ۔۔۔۔ وہ اُٹھنے لگی کہ اشعر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔ دور سے دیکھنے پہ ایسا لگ رہا تھا جیسے دونوں کپل ہاتھوں میں ہاتھ لیے بیٹھے ہوں۔۔۔ کیا بدتمیزی ہے ؟؟ اس نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔۔ میں نے تو ابھی کوئی بدتمیزی کی ہی نہیں ۔۔۔۔ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتا معنی خیزی سے بولا جو غصے کی زیادتی سے سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ آپ مجھے یہاں جو بات کرنے کے لیے لائے تھے وہ کریں میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔۔۔۔۔ اس نے غصے بھر لہجے میں کہا۔۔۔ ٹھیک ہے مجھ سے شادی کر لو۔۔۔۔ اس نے اطمینان سے اس کے سر پر بم پھوڑا۔۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہِیں ہوش میں تو ہیں آپ ؟؟ وہ آس پاس کا خیال کرتے دبے لہجے میں غرّائی۔۔ بلکل ہوش میں ہوں میری جان تم اس درید سے شادی مت کرنا بہت برا ہے وہ۔۔ اس سے زیادہ میں تمہیں پیار دوں گا اتنا کہ تم اسے بھول جاو گی۔۔۔۔ وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامتا ہوا بولا ۔۔۔ چھوڑیں مجھے ورنہ میں شور مچا دوں گی۔۔ آپ ایک انتہائی گھٹیا انسان ہیں غلطی میری ہے جو آپ کی باتوں میں آکے یہاں چلی آئی۔۔۔۔۔ وہ اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی۔۔۔ اب تو یہ غلطی تم کر چکی ہو مائی ڈئیر کزن۔۔۔۔ وہ عجیب سے لہجے میں بولا مگر ساوی نے کوئی دھیان نہ دیا ۔۔ آئیندہ اپنی شکل مت دکھائیے گا مجھے۔۔۔۔ وہ غصے سے کہتی اپنا بیگ اٹھاتی روڈ پہ آگئی اور ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہو گئی۔۔۔۔ اس کے جانے کے بعد کوئی آدمی چلتا ہوا اشعر کے سامنے آبیٹھا ۔۔۔ کام ہوا؟؟ اشعر نے پوچھا۔۔۔ جی جیسا آپ نے کہا تھا بلکل ویسا ہی کیا ہے آپ ایک دفعہ چیک کر لیں اسے دیکھ کر کوئی بھی مرد غصے سے پاگل ہو سکتا ہے۔۔۔۔ وہ فون اشعر کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ۔۔۔ اشعر نے فون تھاما اور فون میں موجود تصویریں دیکھتا ہوا شاطرانہ انداز میں مسکرا دیا۔۔۔۔ ساوی صرف اشعر کی ہے درید احمد صرف اشعر کی۔۔۔۔۔ وہ کمینی مسکراہٹ سے بڑبڑایا اور اس آدمی کو پیسے دیتا اٹھ گیا۔۔۔


درید آج لیٹ گھر آیا تھا اس نے اپنا فلیٹ لیا تھا جس کی رینویشن کا کام چل رہا تھا اس کا ارادہ تھا کہ وہ شادی کے بعد ساوی کے ساتھ وہیں رہے گا اسے پتہ تھا کہ چچا چچی ناراض ہوں گے اس بات پر مگر وہ ساوی کے ساتھ اپنے علیحدہ گھر میں رہنا چاہتا تھا جہاں وہ ہو اس کی چڑیا اور معصوم سے ننھے منھے چڑی چڑے۔۔۔۔۔ آج بھی وہ فلیٹ کو دیکھنے گیا تھا جہاں کام تقریباً مکلمل ہو چکا تھا بس سیٹنگ کا کام رہتا تھا اس نے ورکرز کو ہدایت کر دی تھی کہ جلدی کام کمپلیٹ کریں اور انھوں نے دو دنوں کا وقت مانگا تھا۔۔۔۔ وہ گھر پہنچا تو سبھی اپنے اپنے کمروں میں تھے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا جب مراد صاحب کے کمرے سے ساوی کا نام سن کے رُک گیا۔۔۔۔ شایان نے مجھے بتایا ہے کہ افرحہ راضی ہے شادی کے لیے اس لیے میں سوچ رہی تھی کہ پھر شادی میں دیر کیسی ؟؟ نادیہ بیگم مراد صاحب کو بتا رہیں تھیں۔۔۔۔ ایک بار خود افرحہ سے پوچھ لو شایان کا کیا بھروسہ خود سے ہی اس کی طرف سے ہاں کہہ دیا ہو۔۔۔۔ مراد صاحب نے کہا۔۔۔ اب اتنا بھی بُرا نہیں ہے میرا بیٹا ۔۔۔ شایان سے بات کے بعد افرحہ سے بھی پوچھ چکی ہوں میں ۔۔۔ اس نے ہاں میں ہی جواب دیا ہے۔۔۔۔ انہوں نے خفگی سے کہا تو مراد صاحب ہنس پڑے ۔۔۔ اچھا اچھا ٹھیک ہے بہت اچھا ہے آپ کا بیٹا ۔۔۔۔ اب ساوی کے بارے میں بھی کُچھ سوچ لو ۔۔۔۔ انہوں نے کہتے ساوی کے بارے میں یاد دلایا ۔۔۔ اس کے بارے میں بھی سوچ لیا ہے میں نے اس کے لیے جو رشتہ آیا ہے وہ بہترین ہے شایان کے ولیمے پہ ہی اس کی منگنی کر دیں گے ۔۔۔۔۔ مجھے اپنی بچی پہ پورا یقین ہے وہ کبھی ہمیں انکار نہیں کرے گی۔۔۔ ان کے لہجے میں مان بول رہا تھا ۔۔۔۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔ مراد صاحب نے سر ہلایا۔۔۔۔ اور باہر کھڑے درید کی ذات جھٹکوں کی زد میں تھی۔۔ اس کی ساوی کسی اور کی۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کیا چچا چچی کو میں نظر نہیں آیا ۔۔۔مطلب اشعر سچ کہہ رہا تھا چچی جان نے مجھ پہ کسی اور کو فوقیت دی میں ان کا اپنا خون نہیں اس لیے۔۔۔ کیا انہیں میں نظر نہیں آیا ؟؟ کیا وہ مجھ سے پیار نہیں کرتیں!؟؟؟ مختلف طرح کی منفی سوچیں تھیں جنہوں نے اسے گھیر لیا تھا۔۔۔۔اور وہ ہارے ہوئے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا اور بغیر چینج کیے بستر پہ ڈھے گیا۔۔۔ غصے سے اس کے دماغ کی رگیں پھول رہیں تھیں اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ساری دنیا کو آگ لگا دے۔۔ کوئی اس کی ساوی کو چھن کر لے جائے اور وہ چپ چاپ تماشا دیکھتا رہے ایسا تو کبھی مر کر بھی نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ تم صرف میری ہو ساوی صرف میری ۔۔۔۔۔ کُچھ بھی کر سکتا ہوں تمہیں پانے کے لیے۔۔۔۔ کوئی تمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا میں جان لے لوں گا اس کی جس نے میری چڑیا کو مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔وہ بھڑکتے دل سے سوچتا ساوی سے مخاطب ہوا اور ہر سوچ کو جھٹک کر فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔۔۔


نادیہ بیگم نے کھڑکی سے جھانک کر باہر دیکھا تو درید جا چکا تھا ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے واپس بیڈ پہ جا کے بیٹھ گئیں ۔۔۔ یہ سب کیا تھا نادیہ مجھے کُچھ سمجھ نہیں آئی تم نے ایسا کیوں کہا کہ ساوی کے لیے رشتہ آیا ہے جبکہ تم جانتی ہو وہ درید کی منگ ہے ۔۔۔ اور تم مجھے اشارے کیوں کر رہی تھی چپ رہنے کے لیے۔۔۔۔۔ مراد صاحب نے الجھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ ساوی کے رشتے کی بات میں نے اس لیے کی کیونکہ باہر درید کھڑا تھا اسی کو سنانے کے لیے بولا میں نے۔۔۔۔ نادیہ بیگم۔مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔ مگر کیوں ؟؟ مراد صاحب حیران ہوئے۔۔۔ کیونکہ درید نے کبھی نہیں کہا کہ وہ ساوی کو پسند کرتا ہے لیکن اس کی آنکھوں میں ساوی کے لیے بے انتہا محبت ہے اور میں چاہتی ہوں کہ وہ خود آکر مجھ سے کہے کہ ساوی کی شادی اس سے ہو وہ مجھ سے ساوی کو مانگے۔۔۔۔نادیہ بیگم نے بتایا ۔۔۔۔ اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو؟؟؟ مراد صاحب نے پوچھا ۔۔۔ تو کُچھ نہیں ہم درید کو نہیں بتائیں گے کہ ساوی کا رشتہ کس سے طے ہوا ہے یہ بات اسے اپنے منگنی پہ ہی پتہ چلے گی۔۔۔ اور یہ اس کے لیے بہت بڑا سرپرائز ہو گا میں اس کی آنکھوں میں خوشی کی وہ چمک دیکھنا چاہتی ہوں جو بھائی صاحب اور بھابھی کی موت کے بعد سے کہیں کھو گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ خوشی سے بولتی آخر میں افسردہ ہوئیں۔۔۔۔ یہ تو واقعی بہت بڑا سرپرائز ہو جائے گا درید کے لیے ۔۔۔ ساوی کو بھی نہیں بتاو گی۔۔۔۔۔ مراد صاحب نے پوچھا۔۔۔ ساوی اور درید کے لیے ہی تو سرپرائز ہے افرحہ اور شایان کو بتا دوں گی بسس ان دونوں کو نہیں .۔۔۔۔۔۔نادیہ بیگم مزے سے پلاننگ کرتی ہوئیں بولیں۔۔۔ واہ بھئی مان گئے آپ کو ۔۔۔۔ مراد صاحب توصیفی انداز میں بولے۔۔۔۔ آداب آداب۔۔۔۔ نادیہ بیگم نے خوش مزاجی سے کہا تو مراد صاحب ہنس پڑے۔۔۔ نادیہ بیگم نے درید کی آنکھوں میں ساوی کے لیےمحبت تو دیکھ لی تھی مگر اس کی آنکھوں میں ساوی کے لیے جنون نہیں دیکھ پائی تھیں جو ضد میں آجائے تو سب کُچھ تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔۔۔

   0
0 Comments